پت جھڑ کے زخم دل پہ سجائے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے گل بہار میں لائے ہوئے ہیں ہم
بادل کی اوٹ سے کوئی جھانکے تو روشنی
آنکھوں میں اس کا عکس سجائے ہوئے ہیں ہم
صحرا میں ہے چراغ کی لو کا بسیرا آج
پھولوں کی خوشبو درد چھپائے ہوئے ہیں ہم
ہر سمت رنگ و نور کی بارش کا ہے سماں
یادوں کا ایک دیپ جلائے ہوئے ہیں ہم
دریا کی تہہ میں چاند اتارے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے کتنے راز سنوارے ہوئے ہیں ہم
پتھر پہ بھی گلاب کھلائے ہیں جا بجا
صحرا میں دل کے دیپ جلائے ہوئے ہیں ہم
بادل کی چھاؤں رات سنوارے ہوئے کھڑی
افسانہ ایک شام سنائے ہوئے ہیں ہم
چہرے پہ نقش درد کی پرچھائیاں نہ پوچھ
پلکوں پہ اک سراب سجائے ہوئے ہیں ہم
دنیا کی دھوپ چھاؤں سے بےزار کب ہوئے
دھوکے بھی زندگی سے ہی کھائے ہوئے ہیں ہم

0
8