یہ کس کے غم نے ہمیں درد سے ملایا ہے
جہاں سے درد ملا دل وہیں پہ پایا ہے
نہ قرب مل سکا ہم کو، نہ دور رہ پائے
عجب فسانہ محبت کا یہ بنایا ہے
گزر رہے ہیں جہاں سے، وہاں بہاریں ہیں
کسی نے جھاڑے کے موسم میں گل کھلایا ہے
وہ اپنی ضد پہ اڑا ہے تو ہم وفا پہ اڑے
محبتوں کی یہ ضد نے عجب ستایا ہے
وہ خواب جیسا ہے، پر خواب سا نہیں لگتا
کسی چراغ نے جیسے دیا جلایا ہے
یہ درد، عشق کا لمحہ، یہ شوق، قربت کا
کسی نظر نے ہمیں پھر سے ور غلایا ہے
نہ اس کو روک سکے ہم، نہ خود ہی بڑھ پائے
عجیب دل نے مرا حال یہ بنایا ہے
کبھی مکیں اُسی دل کے تو ہم بھی تھے عاصم
کسی کو ہم نے فقط یاد ہی دلایا ہے

0
4