الجھنیں حل طلب ہے چھوڑ گیا
جانے کیوں بے سبب ہے چھوڑ گیا
جس کو میں دل و جاں سے چاہتا تھا
مجھ کو نا جانے کب ہے چھوڑ گیا
جس کی شدت سے اب ضرورت تھی
ہائے  کمبخت  کب  ہے چھوڑ گیا
لمحہ بھر کو بھلانا ہے مشکل
یادیں بھی وہ غضب ہے چھوڑ گیا
وہ مجھے کب کا چھوڑ  چکا تھا
میں یہ سمجھا کہ اب ہے چھوڑ گیا
نیند اس کے بنا نہیں آتی
عادتیں بھی عجب ہے چھوڑ گیا
زندگی کی حسین یادوں میں
ایک رنگین شب ہے چھوڑ گیا
دشت کے ریگزاروں میں عاصم
فصلِ گل کی طلب ہے چھوڑ گیا

66