مجھے لے چلو کہیں تم ، جہاں پہ کوئی نہ ہو |
ضروری تو نہیں ہے آسماں پہ کوئی نہ ہو |
یہی ہے شرط مسافت کی، راہ میں میری |
نشانِ نقشِ پا، کارواں پہ کوئی نہ ہو |
گھٹا کے ساتھ چمکتی تھی بجلیاں بھی بہت |
میں چاہتا ہوں سکوں کہکشاں پہ کوئی نہ ہو |
یہی سکون ہے، دنیا مجھے بھلا دے اب |
کہ حرف حرف کہیں داستاں پہ کوئی نہ ہو |
یہ خاک زاد، یہ جلتے دیے، یہ اجڑے دیار |
یہ کیسا شہر ہے، کیوں کر یہاں پہ کوئی نہ ہو |
یہ بے صدا سی فضا چاند روشنی اور میں |
عجیب بات ہے، کے ہم زباں پہ کوئی نہ ہو |
میں ایک راز تھا جو بے نشاں رہا لیکن |
یہ کیا غضب ہوا میرے نہاں پہ کوئی نہ ہو |
معلومات