جب سے نکالا  خلد سے  ہم  امتحاں میں ہیں
اب کوئی جانتا نہیں کے کس  جہاں میں ہیں
تہہ در  زمیں ہے تو ہے یہ تہہ در ہی  آسماں
  اب ہم زمیں  پہ ہیں یا  ابھی آسماں میں ہیں
اک ایک کر کے کھل رہے  ہیں راز  مجھ پہ اب
لگتا ہے میرے راز  ابھی  رازداں میں ہیں
تم بھولنا بھی چاہو بھلا تو  نہ پاؤ گے
ہم تیرے بس میں ہی نہیں  وہم و گماں میں ہیں
اپنی تو   وسعتوں کے ٹھکانے  ہیں  اور بھی
ہم ارض و آسماں میں  نہیں لامکاں میں ہیں

0
86