آیت الکرسی لکھی ماں نے ہے جب سے   ماتھے پر
اب اندھیروں سے مجھے لگتا  نہیں ہے کوئی  ڈر
چیختی ہے خامشی گھر کی یہ حالت دیکھ کر
اب پرندے بھی نہیں آتے کسی دیوار پر
روز یادوں کے گھنے جنگل میں پاگل کی طرح
درد کے جگنوں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات بھر
ورنہ یہ ویراں مکاں ہوتے ہیں بس دیوار و در
گھر وہی ہوتا ہے، جس میں ہو مسافر کا گزر
پیار سے جو دیکھ لے، وہ غم بھی لگتا ہے خوشی
دل کے صحرا میں جو ہوتا ہے محبت کا گزر
رات کے خاموش لمحوں میں پرندے یاد کے
گنگناتے ہیں ہوا میں کوئی میٹھی میٹھی سر
سب پرندے اب تو ہجرت کر رہے ہیں آجکل
بستیاں اب کھا چکی ہیں کھیت پودے اور شجر
یاد کا جگنو جو بچپن میں چمکتا تھا کہیں
آج بھی شب میں جلاتا ہے امیدوں کا سفر

0
106