پوچھ نہ کیسے ہوا، کیوں کر ہوا
ٹھیک ہے بس جو ہوا بہتر ہوا
اٰگ گئی سرسوں نظر کے سامنے
یہ تجربہ بھی ہتھیلی پر ہوا
میں نے جو چاہا تھا وہ نہ ہو سکا
جو نہ چاہا تھا وہی آخر ہوا
رات دن یہ سوچتا رہتا ہوں میں
پھول سا سینہ کیوں پتھر ہوا
پھر مری آنکھوں میں آنسو آ گئے
پھر مرا قابو سے دل باہر ہوا
زلزلوں نے اس قدر جھٹکے دیے
شہر کا نام و نشاں کھنڈر ہوا
دیکھ لے عاصم سیاست کا کمال
کل کا رہزن آج کا رہبر ہوا

74