ہم جو نکلے سرِ صحرا تو یہ منظر دیکھا
ہر طرف خاک اڑی، درد کا پیکر دیکھا
جس کو سمجھا تھا محبت ،دل و جاں کی منزل
اس کو بھی خوف کی دیوار کے اندر دیکھا
زخم کھائے تو یہ احساس ہوا ہے ہم کو
زندگی کو کبھی ہنستے، کبھی رو کر دیکھا
قتل ہونے پہ بھی خاموش رہے اہلِ جنوں
خوف و دہشت میں تو قاتل کا وہ لشکر دیکھا
ہم نے جھکنے نہ دیا اپنی وفا کا پرچم
سر کٹا پھر بھی نشاں نوکِ سناں پر دیکھا
دل کی ویران گلی میں کوئی آہٹ سن کر
بند دروازوں کے پیچھے نہیں جا کر دیکھا
جب حقیقت کے سمندر میں اترنا چاہا
ہاتھ ملتے ہوئے ساحل پہ مقدر دیکھا
سید گلزار عاصم

0
5