آواز  جسے  دوں وہ صداؤں میں نہیں ہے
تم جیسا  کوئی ایک بھی گاؤں میں نہیں ہے
کس بات سے ڈرتے ہو تمہیں کون سی الجھن
کوئی بھی تو پتھر تری راہوں میں نہیں ہے
میں جان گیا ہوں تری مجبوریاں جاناں
   پازیب جو دی تھی ترے پاؤں میں نہیں ہے
  میرا  تو یہ دشمن بھی  ہے کم ظرف ہی نکلا
مارا  ہے مجھے پھینکا بھی  چھاؤں میں نہیں ہے
خوابوں میں کہاں کھوئی ہوئی  رہتی ہو اکثر
وہ ہنستی ہوئی چاندنی  آنکھوں میں نہیں ہے
اک سانس بھی تیرے بنا دشوار ہے لینا
جب سے تری خوشبو مری سانسوں میں نہیں ہے
جس روز  سے تو نے  ہے مجھے پیار سے دیکھا
بے چین ہے دل   نیند بھی  آنکھوں میں نہیں ہے
اس شخص کی بھی زندگی  کیا زندگی  عاصم
جو شخص کسی کی بھی  دعاؤں میں نہیں ہے

0
117