جس کی تحریر مقدس ہے صحیفوں جیسی
جس کا ہر لفظ مری نظم کا عنوان بنا
جس کی زلفوں میں گھٹا دیکھ کہ بادل جھومے
جس کے ہونٹوں کی مہک چھو کے گلستان بنا
لب ہلائے تو شگوفوں کے بدن کھل جائیں
مسکرائے تو تبسم کاشرارہ پھوٹے
رو برو ہو تو فروزاں ہوں محبت کے چراغ
روٹھ جائے تو مقدر کا ستارہ ٹوٹے
آ کہ مل جل کے اجالوں کے حسیں پھول چنیں
ایک مدت سے ادھورے ہیں جو وہ خواب بنیں
منتقل آج کے بعد ایسی جگہ ہو جائیں
میں جہاں آپ کی بس آپ مری بات سنیں
پیار کے ساتھ خیالوں میں حسیں ہونٹوں کو
گر اجازت ہو تو چھونے کی جسارت کر لوں
جو برا نا تو منائے اے مری جان غزل
نام کے ساتھ ، ترا نام عبارت کر لوں

0
16