چمکتی رات کے پہلو میں خواب رکھتا ہوں
ہزار زخم بھی سہنے کی تاب رکھتا ہوں
ہوا کے رخ پہ بناؤں میں روشنی کا محل
مسافتوں میں چراغِ گلاب رکھتا ہوں
تمہاری یاد کے موسم عجیب ہوتے ہیں
میں دل کی تہہ میں چراغِ سراب رکھتا ہوں
کہاں چلے گئے سب خواب آنکھ کے منظر
میں ہر سوال کا تازہ جواب رکھتا ہوں
محبتوں کا سفر جو ، کبھی نہ ختم ہوا
دلِ شکستہ میں خود اضطراب رکھتا ہوں

0
11