خوف اک وہی رہتا ہے مرے  خیالوں میں
کو فیوں  سی عادت ہے تیرے شہر والوں میں
بے مثال ہے تُو سب حسن کے حوالوں میں
میر کی غزل غالب ، جوش، کی مثالوں میں
لفظوں میں جو شامل ہے زہر تیرے لہجے کا
    کاٹ رکھتی ہے تیری یہ زباں سوالوں میں
وہ اندھیروں کو ہی مسکن بنا کے بیٹھے تھے
ڈھونڈتا رہا جن کو عمر بھر  اجالوں میں
جانتے بھی ہو  ناکامی کے تم سبب سارے
پوچھتے  ہو گزری باتیں وہی سوالوں میں
دل  الجھ گیا ہے اس کےحسیں خیالوں میں
جب وہ  مسکرائے  بنتے  بھنور ہیں گالوں میں
عشق تو جنوں ہے دیوانگی ہے پاگل پن
ناز نخرے تو ہوتے ہیں یہ حسن  والوں میں
جھیل کے کنارے اک میرا  گاؤں تھا عاصم
شہر میں ہوا ہے تبدیل چند سالوں میں

48