آج وہ پہلی بار ملا ہے خوش ہوکے
چاہت کا اظہار کیا ہے خوش ہو کے
دل کے ساتھ لگا کر گہرے زخموں کو
ہم نے غم کا زہر پیا ہے خوش ہو کے
لوگو آکر دیکھ لو اپنی آنکھوں سے
سولی پر منصور چڑھا ہے خوش ہوکے
سارا شہر خلاف تھا جس دیوانے کے
آج وہ دنیا چھوڑ چلا ہے خوش ہو کے
سوچھ رہا ہوں کونسی مجھ میں خوبی ہے
سب نے مجھ کو یار کہا ہے خوش ہو کے
آگ لگی ہے عاصم سب کے سینوں میں
کس نے میرا نام لیا ہے خوش ہو کے

0
82