جس کے لئے جہان کو دشمن بنا لیا
اس نے بڑے خلوص سے دامن چھڑا لیا
تہہ دل کے ساتھ شکر یہ اس کا ادا کرو
روٹھی ہوئی بہار کو جس نے منا لیا
ہرگز کبھی نہ آؤں گا تیرے فریب میں
دھو کا جو جان بوجھ کے کھانا تھا کھالیا
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جب گفتگو ہوئی
شرم و حیا سے چاند نے چہرہ چھپا لیا
عاصم ابھی تو ایک بھی ٹھوکر نہیں لگی
پہلے ہی تو نے آسماں سر پر اٹھا لیا

87