| وہ بچپنے کی محبت تھی، خواب جیسی بس |
| یہ عشق تم سے بھلایا نہ جا سکے گا کبھی |
| یہ دن بھی آئیں گے، سوچا نہ تھا کبھی میں نے |
| کہ قربتوں میں بھی شکوہ نہ جا سکے گا کبھی |
| ادھورے لمس، ادھورے سوال، کچھ یادیں |
| یہ سلسلہ بھی چھپایا نہ جا سکے گا کبھی |
| ہر ایک بات کو چپ کے زبان میں لکھا |
| یہ فن کسی کو سکھایا نہ جا سکے گا کبھی |
| مرے وجود کی ہر سانس میں سمویا ہے تُو |
| یہ ربط تیرا بھلایا نہ جا سکے گا کبھی |
| ازل سے روح پہ کندہ ہے تیرا نام یہاں |
| یہ نقش دل سے مٹایا نہ جا سکے گا کبھی |
معلومات