چشمِ تر میں ہیں کئی درد کے نالے، چپ ہیں
لب پہ آئے تھے کئی راز کہ تالے چپ ہیں
خواب سب رات کے آنچل میں تھے باندھے میں نے
کر کے ہر خواب وہ آنکھوں کے حوالے چپ ہیں
وقت کی دھوپ میں سائے بھی مٹے جاتے ہیں
جتنے تھے ساتھ وہ سب پاؤں کے چھالے چپ ہیں
یاد کی راہ میں جگنو بھی نہیں آتے اب
شام خاموش کھڑی، چاند کے ہالے چپ ہیں
دھوپ سہنے کی سزا یہ ہے کہ سایہ چھن جائے
اب وہی پیڑ جو تھے سایہ سنبھالے، چپ ہیں
ہے تماشا یہ عجب ہی کہ محافظ سارے
ملک کر کے یہ لٹیروں کے حوالے چپ ہیں
قوم پر دور مسلط ہے نظامِ ظلمت
بزمِ ہستی کے سب اخبار رسالے چپ ہیں

0
13