رقیبوں  سے بھی  رکھے ہیں روابط دوستی کی طرح
جلا رکھا ہے دل کے زخموں کو بھی روشنی  کی طرح
نہ کوئی خط نا  قاصد نا   ہے کوئی  رازداں  کی فکر
مشینیں دے رہی ہیں یہ تو خدمت  آ دمی کی طرح
بھڑکتے  شعلے نفرت  کے نہ دنیا میں ہی  مرتے لوگ
اگر انسان رہتا  اس جہاں  میں آدمی کی طرح
مقدس جان کر جو پڑھتے تھے میری لکھی ہر نظم
ہمارے  پاس سے گزرے  ہیں وہ بھی اجنبی کی طرح
یہ قصہ دشمنوں کا ہے مگر اپنوں کا بھی ہے ذکر
نبھایا ہے بخوبی رول سب  نے   دشمنی کی طرح

0
52