رقیبوں سے بھی رکھے ہیں روابط دوستی کی طرح |
جلا رکھا ہے دل کے زخموں کو بھی روشنی کی طرح |
نہ کوئی خط نا قاصد نا ہے کوئی رازداں کی فکر |
مشینیں دے رہی ہیں یہ تو خدمت آ دمی کی طرح |
بھڑکتے شعلے نفرت کے نہ دنیا میں ہی مرتے لوگ |
اگر انسان رہتا اس جہاں میں آدمی کی طرح |
مقدس جان کر جو پڑھتے تھے میری لکھی ہر نظم |
ہمارے پاس سے گزرے ہیں وہ بھی اجنبی کی طرح |
یہ قصہ دشمنوں کا ہے مگر اپنوں کا بھی ہے ذکر |
نبھایا ہے بخوبی رول سب نے دشمنی کی طرح |
معلومات