ہو گئے تم بھی خفا، مجھ کو اکیلا کر کے
کیا ملا ہے تمہیں اے یار یہ سارا کر کے
َ خوش نہیں ترکِ تعلّق کا ارادہ کر کے
آج رویا ہوں بہت دل کا خسارہ کر کے
اب اگر لوٹ بھی آؤ تو یہ ممکن ہی نہیں
وہ محبت ملے پھر زخم کو تازہ کر کے
چپ سی رہتی ہے صدا رات کے سینے میں کہیں
میں نے کھویا ہے تجھے صبر کا وعدہ کر کے
َ بات کرنا بھی اگر بوجھ لگے اب تم کو
دیکھ لیتے ہیں تو کچھ روز کنارہ کر کے
جسم باقی ہے مگر روح کہاں ہے عاصم
وہ مجھے چھوڑ گیا ہے بے سہارا کر کے

0
6