| یاد ہے اب تک وہ ماضی کی مکمل داستاں |
| وہ سہانی چاند راتیں وہ بہاروں کا سماں |
| یاد ہے اچھی طرح گذرا زمانہ آج بھی |
| یاد ہیں اب تک حسیں وعدے سبھی اے جان جاں |
| سوچا تھا کہ خواب کی تعبیر مجھ کو مل گئی |
| زندگی کے روپ میں تنویر مجھ کو مل گئی |
| پیار کے مفہوم کا عنوان آیا سامنے |
| داستانِ عشق کی تفسیر مجھ کو مل گئی |
| بیٹھے بیٹھے جب ستاتا ہے مجھے تیراخیال |
| گھومتی ہے خشک آنکھوں میں حسیں صورت تری |
| احتراما چوم لیتا ہوں پجاری کی طرح |
| دل کے خاکے پر تخیّل سے بنی مورت تری |
| آہ اپنے آپ کو تونے کیوں دھو کا دیا |
| چند سکوں کے عوض کیوں جسم کا سودا کیا |
| غیر کے پہلو میں سو جائے گا یوں تیرا ضمیر |
| اس قدر گھٹیا ہے تو یہ آج تک سوچا نہ تھا |
| ایک اک کر کے سبھی باتیں پرانی یاد ہیں |
| دلربا دلکش جواں راتیں پرانی یاد ہیں |
| رقص کرتی ہے تری صورت نگاہوں میں ہنوز |
| ہاں بلا ناغہ ملاقاتیں پرانی یاد ہیں |
| مشرقی ماحول کی پابندیوں کے باوجود |
| وہ ترا ملنا مجھے ہر حال میں ہر صبح و شام |
| وہ ترا کھلنا مسرت سے گلابوں کی طرح |
| وہ ترا نس نس میں خوشبو کی طرح کرنا قیام |
| اک زمانہ تھا کہ سارے شہر میں مشہور تھے |
| عشق کے قصے ہمارے لیلی مجنوں کی طرح |
| پیار کی دنیا ہمارے نام سے منسوب تھی |
| لازم و ملزوم تھے ہم سسی پنوں کی طرح |
| ڈال کر میرے گلے میں مرمری بانہوں کا ہار |
| جھومتی تھی دل کے آنگن میں کبھی بن کے بہار |
| ہونٹ جس کے سرخ مائل تھے گلابوں کی طرح |
| گنگناتی ہے خیالوں میں وہ عینی بار بار |
| بات یہ میرے لئے اب تک معمہ ہے بنی |
| عشق میں اک بار پھر ناکام کیوں میں ہو گیا |
| ساری ساری رات عاصم سوچتا رہتا ہوں میں |
| تیری خاطر مفت میں بدنام کیوں میں ہو گیا |
معلومات