یہ جو پلکوں پہ لرزتی ہے ندامت کیا ہے |
یوں بکھرتے ہو سرِ شام یہ عادت کیا ہے |
نید آتی نہیں ہونٹوں سے ہنسی چھن گئی ہے |
حالِ دل میرا سمجھتے ہو، کرامت کیا ہے |
تم جو ہر بات میں ٹھہراتے ہو خود کو بے قصور |
پھر یہ پل پل کی شکایت، یہ عدالت کیا ہے |
چاندنی رات میں چہرہ بھی چھپاتے ہو تم |
دل کے آئینے سے ڈرتے ہو؟ یہ وحشت کیا ہے؟ |
وہ زمانے سے چھپا لے گا حقائق کب تک |
وقت خود کھول کے رکھ دے گا حقیقت کیا ہے |
سب ہی تو خون کے پیاسے ہیں یہاں پر لیکن |
جانتا کوئی نہیں ہے وجہ نفرت کیا ہے |
معلومات