یادوں کو بھلانے کی تمنا نہ کریں گے |
جو پھول بکھر جائیں، وہ تازہ نہ کریں گے |
جو لوگ غلامی کے اندھیروں میں پلے ہوں |
وہ لوگ اُجالوں کا تقاضا نہ کریں گے |
یہ اشک تو دریا کے کنارے پہ کھڑے ہیں |
ڈوبیں گے مگر شور شرابہ نہ کریں گے |
تقدیر کا لکھا تو مٹا بھی نہیں سکتے |
ہاتھوں کی لکیروں سے بھی الجھا نہ کریں گے |
خوابوں کی گلی میں سحر لائیں گے لیکن |
ویران دریچوں کو جلایا نہ کریں گے |
جو خواب تھے آنکھوں میں وہ مٹی ہو چکے ہیں |
اب ان کو کسی طور بھی دیکھا نہ کریں گے |
ساحل کی طلب میں ہی بھٹکتے رہیں بے شک |
طوفان کی شرطوں پہ تو سودا نہ کریں گے |
معلومات