نادِ علی کے ورد نے   جھکنے نہیں دیا
کن فایا کون  بھی کبھی  گرنے نہیں دیا
ہر طوفاں سے وہ ٹکرا بھی سکتا تھا مگر
کشتی کو راستہ ہی بھنور   نے نہیں دیا
ناکامیوں سے دل تو بہت ڈرتا ہے مگر
ولناس کے وظیفوں نے ڈرنے نہیں دیا
ممکن تھا لامکان سے آگے گذرتا وہ
المنتہیٰ نے آگے  گزرنے نہیں دیا
پرواز   بھرتا  میں  کیا    پہلی  اڑان کی
بزدل تھے میرے چارہ گر اڑنے نہیں دیا
میں نے بھی ضبط کا یہ ہنر سیکھ ہی لیا
اب آنسو  آنکھ سے کبھی  گرنے نہیں دیا
سچائی کے ہی خوف سے  لوگوں نے آج تک
تاریخ کو  بھی  سچ کبھی  لکھنے نہیں دیا

2
130
واہ ! سبحان اللہ!
مولا سلامت رکھے

0
آپ کی حوصلہ افزا آرا میرے لیے بے حد قیمتی ہے خوش رہیں سلامت رہیں