نادِ علی کے ورد نے جھکنے نہیں دیا |
کن فایا کون بھی کبھی گرنے نہیں دیا |
ہر طوفاں سے وہ ٹکرا بھی سکتا تھا مگر |
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا |
ناکامیوں سے دل تو بہت ڈرتا ہے مگر |
ولناس کے وظیفوں نے ڈرنے نہیں دیا |
ممکن تھا لامکان سے آگے گذرتا وہ |
المنتہیٰ نے آگے گزرنے نہیں دیا |
پرواز بھرتا میں کیا پہلی اڑان کی |
بزدل تھے میرے چارہ گر اڑنے نہیں دیا |
میں نے بھی ضبط کا یہ ہنر سیکھ ہی لیا |
اب آنسو آنکھ سے کبھی گرنے نہیں دیا |
سچائی کے ہی خوف سے لوگوں نے آج تک |
تاریخ کو بھی سچ کبھی لکھنے نہیں دیا |
معلومات