خدا  کرے کہ  کوئی بھی بُری خبر نہ ملے
مرا کوئی بھی  رقیبوں سے  نامہ بر نہ ملے
اداس لوگ تھے چہرے وہ آنکھیں بھی نم تھیں
جو لوگ پھر کبھی  بھی راہِ ہمسفر نہ ملے
یہ گھر کیا   ہوا  تقسیم فرد  بھی  ہو گئے
کہ  ساتھ ساتھ وہ رہتے  بھی عمر بھر نہ ملے
جو بات کہہ دی سو وہ کہہ دی پھر بدلتے نہیں
یہ ڈر نہیں ہے مجھے کاندھوں پر یہ  سر نہ ملے
اگر وہ ہم سے تعلق ہی توڑ کر  خوش   ہے 
ہمیں بھی شوق نہیں چاہے عمر بھر نہ ملے
تکلفات کو  ہم نے بھی  چھوڑ ڈالا ہے
ملیں  بھی کیوں اٰسے جو ہم کو چاہ کر نہ ملے
مرے لیے تو یہ اتنا ہی کافی ہے عاصم
وہ مسکراتی رہے بس کہ  دیدہ تر نہ ملے

0
46