سلسلہ میری چاہتوں کا ہے
تتلیوں جیسی خواہشوں کا ہے
جب سے موسم خراب ہے دل کا
سلسلہ تب سے بارشوں کا ہے
مشکلوں میں گرا ہے میرا وطن
جا بجا  جال سازشوں کا ہے
بدگمانی جو پل گئی دل میں
شاخسانہ یہ  وسوسوں کا ہے
جھوٹ بالائے طاق ہی رکھنا
سامنا جب حقیقتوں کا ہے
کون کتنے ہے پانی میں عاصم
فیصلہ اب تو حوصلوں کا ہے

0
86