حق جان کے بھی حق سے مکر کیسے گئے ہیں
باطل کے اشاروں پہ ٹھہر کیسے گئے ہیں
حق دیکھنے والوں کی نظر کیسے یہ بدلی
باطل سے نہ ڈرتے تھے وہ ڈر کیسے گئے ہیں
بیچے ہیں ضمیر اپنے زر و مال کی خاطر
کچھ لوگ غلاظت میں ہی گر کیسے گئے ہیں
تاریخ کے آئینے میں پہچانوں زرہ تم
سارے یہ منافق بڑوں پر کیسے گئے ہیں
جو اہلِ نظر تھے، وہی بے نور ہوئے کیوں
جو اہلِ سخن تھے، وہی ڈر کیسے گئے ہیں
جن لوگوں کو حاصل تھی شجاعت کی وراثت
وہ ظلم کے سائے میں بکھر کیسے گئے ہیں
جو راہِ وفا میں کبھی جانباز کھڑے تھے
مصلحتوں کے بوجھ میں مر کیسے گئے ہیں

0
4