عشق صوفیانہ ہے
حسن شاعرانہ ہے
تیرے شہر کا موسم
تو بہت سہانا ہے
کام سے نہیں  فرصت
یہ تو اک بہانا ہے
جو بھی ہے  بتا دو اب
مجھ سے کیا چھپانا ہے
تو بھی  ملنے آیا کر
تیرا  آنا جانا ہے
درد کا نہ پوچھو تم
یہ بہت پرانا ہے
کل ہی تم سے بچھڑے تھے
گذرا اک  زمانہ ہے
سب کی اک کہانی ہے
تیرا کیا فسانہ ہے
معنی عشق کے کیا ہیں
ہم نے تم سے جانا ہے
آج تو ٹھہر جاؤ
عرض عاجزانہ ہے
مسکرا دو میری جاں
حالِ دل سنانا پے
تجھ سے دل لگانا ہے
یہ ہی تو فسانہ ہے
خواب بن کے آیا ہے
یا کوئی ترانہ ہے
چاندنی بھی شرمائے
حُسن قاتلانہ ہے
زخم بھی سجائے ہیں
عشق کا خزانہ ہے
زندگی کی راہوں میں
تیرا ہی ٹھکانا ہے
چاہتوں کے جگنو سے
دل کا گل سجانا ہے
یہ نظر کی باتیں ہیں
دل تو اک نشانہ ہے
چاندنی تو گہنا ہے
رات کا خزانہ ہے
زلف کالے بادل ہیں
چہرہ اک فسانہ ہے
لب ہیں جیسے کلیاں سی
ہنسنا دل لگانا ہے
چاند کو بھی حیرت ہے
کس کا یہ ٹھکانا ہے
شوق رنگ بھرنے کا
خواب سے پرانا ہے
قطرہ قطرہ دریا سا
آنکھ کا بہانہ ہے
دل پہ نقش چہرہ ہے
دھوپ کا ترانہ ہے
سرخ گال، سورج سا
نور کا خزانہ ہےپ
پھول بھی خفا ہوں گے
چاند لوٹ جانا ہے
روشنی سی آنکھوں میں
دھوپ کا ٹھکانا ہے

0
75