عشق صوفیانہ ہے
حسن شاعرانہ ہے
تیرے شہر کا موسم
تو بہت سہانا ہے
کام سے نہیں  فرصت
یہ تو اک بہانا ہے
جو بھی ہے  بتا دو اب
مجھ سے کیا چھپانا ہے
تو بھی  ملنے آیا کر
تیرا  آنا جانا ہے
درد کا نہ پوچھو تم
یہ بہت پرانا ہے
کل ہی تم سے بچھڑے تھے
گذرا اک  زمانہ ہے
سب کی اک کہانی ہے
تیرا کیا فسانہ ہے
معنی عشق کے کیا ہیں
ہم نے تم سے جانا ہے
آج تو ٹھہر جاؤ
عرض عاجزانہ ہے
مسکرا دو میری جاں
حالِ دل سنانا پے

0
60