زمانے میں مثالیں چھوڑ جاتے
نئے لہجے کی بحریں چھوڑ جاتے
نہیں کچھ اور تو بچوں کی خاطر
وراثت میں  کتابیں چھوڑ جاتے
تجھے جانا تھا اتنا ہی ضروری
تو اپنی چند یادیں چھوڑ جاتے
مرے سپنے ادھورے ہیں  ابھی تک
مری آنکھوں میں نیندیں چھوڑ جاتے
جدا ہوتے ہوئے اے جانِ جاناں
مری سانسوں میں سانسیں چھوڑ جاتے

0
67