مانا کہ تیرے پیار کے قابل نہیں ہوں میں |
بے شک تری تلاش کا حاصل نہیں ہوں میں |
ہر چند تیری ذات سے کچھ اختلاف ہے |
پھر بھی ترے خیال سے غافل نہیں ہوں میںں |
تجدیدِ عہد بھی تو دوبارا ہو سکتا ہے |
ترکِ تعلقات کا قائل نہیں ہوں میں |
تم بھگتو اپنی ایسی حماقت کی یہ سزا |
گندے کسی بھی کھیل میں شامل نہیں ہوں میں |
اپنی یہ سوچ بدلو مرے بارے میں جناب |
جیسا تو سمجھا ویسا تو بلکل نہیں ہوں میں |
عاصم جہاں غریب کو انصاف نا ملے |
ایسے برے نظام کا قائل نہیں ہوں میں |
معلومات