کیوں خوابوں کے جال بُنیں
اک مدت سے سوچ رہا ہوں
تم سے دل کی بات کہوں
اپنے پاس بٹھا کر تم کو
چاہت کا اظہار کروں
کاش کوئی ان سونے والے
جذیوں کو بیدار کرے
بانہوں میں پھر ڈال کے بانہیں
حد سے بڑھ کر پیار کرے
پل دو پل کی خاطر آ کر
پیار کے گیت سُنا جاؤ
شبنم کی صورت میں میرے
من کی پیاس بجھا جاؤ
جان نچھاور کر دوں گا میں
گر تو مجھ کو مل جاۓ
میرے دل کا غنچہ غنچہ
ساتھ خوشی کے کھل جائے
جب تک تیرے گرد رہیں گے
پہرے ان دیواروں کے
تب تک دیکھ نہیں سکتی تو
جلوے باغ بہاروں کے
آ تجھ کو آغوش میں لے کر
جان سے زیادہ پیار کروں
ابھریں جو الفاظ بدن پر
ان سب کا مفہوم پڑھوں
لیکن ایسا نا ممکن ہے
کوئی ایسی رات ملے
اک انمول نفیس بدن کے
جذبوں کی سوغات ملے
تیرے گھر میں آؤں کیسے
تہمت سے ڈر لگتا ہے
تیرے گھر میں روز میں آؤں
ویسے تو جی کرتا ہے
پھولوں کی خواہش میں کب تک
نفرت کے یہ خار چنیں
ہم اک ٹھوس حقیقت ہو کر
کیوں خوابوں کے جال بنیں

18