صبر لازم ہے، مگر صبر کی حد ہوتی ہے
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
میں نے مانگا ہے تہجد کی نمازوں میں تجھے
خاص گھڑی مانگی دعا تو نہیں رد ہوتی ہے؟
میری ہر بات ہنسی میں اڑا دیتے ہیں سبھی
ان کی ہر بات مگر مثلِ سند ہوتی ہے
حسن دیکھو تو محبت کی نظر سے دیکھو
دیکھنے والوں کی نیت بھی تو بد ہوتی ہے
جیسے آواز سے مفہوم بدل جاتے ہیں
ویسے لفظوں میں بھی مد ہوتی ہے، شد ہوتی ہے
دفن کرتے تو ہیں مٹی میں ہی پیاروں کو مگر
دل کے زخموں میں بھی اک تازہ لحد ہوتی ہے
کوئی کس طور کرے ان پہ بھروسہ، عاصم
وعدۂ حسن پہ وعدوں کی بھی حد ہوتی ہے

0
111