خواب سہما ذرا ڈرا ہوا تھا
وقت کا کارواں رکا ہوا تھا
شام گہری تھی اور ستارے گم
چاند بھی آج کچھ جھکا ہوا تھا
آنکھ روئی تو دل تڑپنے لگا
دور کوئی کہیں گیا ہوا تھا
روح میری کہیں پہ اڑ گئی تھی
میں یہاں پر پڑا ہوا ہے تھا
اک صدا تھی جو دیر تک گونجی
ٹوٹ کر آئینہ گرا ہوا تھا
وقت آگے نکل گیا مجھ سے
میں ابھی بھی وہی رکا ہوا تھا
درد خاموش تھا، مگر دل میں
حادثہ کوئی رونما ہوا تھا
راستے چپ تھے، روشنی گم تھی
جگنو کوئی اداس سا ہوا تھا

0
13