جس محبت کیلئے زہر پڑا تھا کھانا
کیا خبر تھی کہ اسے توڑ کے دل ہے جانا
لاکھ طوفان بھی آجائیں اگر راہوں میں
موت کے خوف کو خاطر میں کبھی نہ لانا
شک کی نظریں میں تعاقب میں بڑی مدت
آپ کا ٹھیک نہیں روز گلی میں آنا
میں تو پہلے ہی سے کہتا تھا کہ باز آجاؤ
دلِ نادان مگر ایک نہ میری مانا
واضع طور پر ہر چیز ابھر آئے گی
غم کے دریا میں کبھی ڈوب کے غوطے کھانا
کیا ہوا وقت کے ہاتھوں میں اگر پتھر ہیں
جانِ جاں ٹوٹ کے اندر سے بکھر نہ جانا
دست بستہ یہ گزارش ہے مری اے عاصم
جا کے پردیس کہیں بھول نہ مجھ کو جانا

56