اتفاقاً وہ جب بھی ملتے ہیں
آرزؤں کے ہی پھول کھلتے ہیں
یاد آتے ہیں جب حسیں لمحے
اشک بے ساختہ نکلتے ہیں
——————————
ایک انجانے خوف سے عاصم
آرزو بد گمان ہو گئی ہے
روز گرتے ہیں صحن میں پتھر
جب سے سلمیٰ جوان ہوگئی ہے

58