"گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے"
جو چھوڑ کر چلے جائیں نہ لوٹ پائیں  گے
مرے توں حال پہ  کیوں رو رہا ہے  چارا گر
ہماری قِسمتوں میں تھا - جدا  ہو  جائیں گے
میں اتنا بھی ہوں نہیں  آساں کے سمجھ  جاؤ
  یہ چند لفظ  بیاں   مجھ کو کر  نہ  پائیں گے
یہ زندگی تو  امانت سمجھ کے جی رہے ہیں
کسی بھی دن تری دہلیز  چھوڑ آئیں گے
سبھی یہ طوفاں اگر مل کہ  آ بھی جائیں تو
تمام کشتیاں عاصم   ڈبو  نہ پائیں گے

0
90