| جو کہا تھا میں نے خیال میں، وہ سمجھ سکا کوئی اور ہے |
| وہ قریب تھا مرے دل کے، پاس مگر رہا کوئی اور ہے |
| میں چراغ تھا کسی شام کا، مجھے ایک جھونکے بجھا دیا |
| مرے بعد رات کے ہاتھ میں، جو جلا رہا کوئی اور ہے |
| یہ جو غم کی دھند میں قید ہوں، یہ کسی کی یاد کا جال ہے |
| جو سکون دل کو نصیب ہو، وہ عطا ہوا کوئی اور ہے |
| جو سوال میں نے کیا کبھی، وہ جواب تک نہ ملا مجھے |
| مری ہر صدا کا عجب الم، کہ سنا گیا کوئی اور ہے |
| میں سفر میں خود سے بچھڑ گیا، یہ غمِ فراق کی رات تھی |
| جو ملا سرابِ خیال میں، وہ نظر میں تھا کوئی اور ہے |
معلومات