زندگی کچھ اس طرح سے ہو گئی مصروفِ کار
کوئی بھی سنتا نہیں مظلوم کی چیخ و پکار
جن کے دم سے چل رہا ہے زندگی کا کاروبار
کب تلک ہوتے رہیں گے وہ تشدد کا شکار
حضرتِ انسان کی تذلیل ہو کر رہ گئی
ایکدم اخلاق سے گر کر ہوا مجرح و قار
بن گئی پھر کوئی مجبوری نشا نہ ہوس کا
پھر ہوا بھوکی ضرورت کا تقدس تار تار
بچوں کے نازک بدن دم توڑ کر مرجھا گئے
آه گلشن کی ہوا آئی نہ ہرگز سازگار
خواہشیں سینے کی گہرائی میں دب کر رہ گئیں
ذہن میں پیدا ہوا سو بار گر چه انتشار
وہ خوشی کا مرحلہ آخر قریب آ ہی گیا
زندگی کو تھا بڑی شدت سے جس کا انتظار
آئیگا آئیگا  لازم اک نہ اک دن انقلاب
حوصلہ بس حوصلہ ، بس اور تھوڑا انتظار
داستاں پھر سستی پنوں کی زباں پر آ گئی
دیکھتے ہی دیکھتے اونٹوں کی اک لمبی قطار
کھینچ کر رکھا کرو عاصم طنابیں  وقت کی
کامیابی پاؤں چومے گی تمہارے بار بار

66