| افلاک کے دامن میں بھی گوہر نہیں ملتا |
| سایا بھی یہاں دھوپ میں اکثر نہیں ملتا |
| جل تھل میں چمکتا ہے سرابوں کی طرح جو |
| وہ عکس بھی پانی میں، برابر نہیں ملتا |
| قطرے کو سمندر کی طلب رہتی ہے لیکن |
| ساحل پہ کوئی ابر کا لشکر نہیں ملتا |
| خوشبو کی طرح بکھری ہے یادوں کی کہانی |
| حسرت بھری آنکھوں کو وہ پیکر نہیں ملتا |
| برباد ہواؤں میں سسکتی رہی خوشبو |
| ویران زمینوں کو تو منظر نہیں ملتا |
| دریاؤں کی حسرت میں مچلتا ہے بادل |
| پیاسے لبوں کو پھر بھی سمندر نہیں ملتا |
| کچھ لوگ دریچوں سے صدا دیتے ہیں لیکن |
| جو دل سے پکارے، وہ سخنور نہیں ملتا |
معلومات