یہ کبھی سوچا نہ تھا  وہ یوں بھی جائے گا بدل
جو   بنا میرے کبھی رہ سکتا تھا نا  ایک پل
تم تو میری ہر غزل کی  شاعری ہو  اے صنم
استعاروں اور تشبیہات میں تم ہو  بے مثل
وقت تو آ خر  گزر ہی جائے گا بس یاد رکھ
آج تیرا ہے تو پھر کیا میرا بھی ہوگا یہ کل
آنکھیں تیری ہیں ردیف اور  ہونٹ جیسے قافیہ
تم  سراپا   حور  ہو  یا پھر  سراپا ہو  غزل
کیسے کٹتی ہے شب تنہائی عاصم سے نہ پوچھ
درد اٹھتا ہے جو سینے میں  جاں جاتی ہے نکل        

0
192