جلتا رہا ہوں دھوپ میں سائے کی دعا دو
صحرا کی طرح ہوں، مجھے بادل کی ردا دو
میں گم ہوں اندھیروں میں کوئی راہ سُجا دو
خوابوں کے نگر میں کوئی جگنو ہی جلا دو
بکھرے ہوئے لمحوں کو سمیٹا نہیں میں نے
گزرے ہوئے کل کا کوئی منظر ہی دکھا دو
پیاسا ہوں بڑی دیر سے بادل نہیں برسا
آنچل کی گھنی چھاؤں مرے دل پہ گرا دو
پلکوں پہ جو کانٹے ہیں، انہیں چن نہیں پایا
یادوں کے جزیرے میں کوئی شمع جلا دو
صدیوں کی مسافت سے میں تھک چکا ہوں عاصم
تھوڑا سا سکوں دے ، مجھے اب چین زرا دو

0