سرخ آنچل کے ہواؤں میں اشارے دیکھے
چاک ہونٹوں پہ تبسم کے نظارے دیکھے
تو نے کل شام کو ملنے کی قسم کھائی تھی
جا سبھی جھوٹے ترے پیار کے لارے دیکھے
کس پے عمبر نے درختوں سے پنا مانگی ہے
وقت کے ہاتھ میں ہیں موت کے آرے دیکھے
دیکھنے والوں کے ہونٹوں پہ ہنسی لہرائی
ڈوبنے والوں نے حسرت سے کنارے دیکھے
عہدِ ماضی کو نگاہوں میں بسا کر عاصم
سوگ میں ڈوبے ہوئے میں نے ستارے دیکھے

116