سرمئی شام سے شبنم سی سحر ہونے تک |
تیری یادوں کی ضیا دل میں جلی رہتی ہے |
یہ جو خوابوں کا تسلسل ہے، یہ احساسِ جمال |
تجھ سے وابستہ ہر اک شے سے جِڑی رہتی ہے |
میں نے سوچا تھا کہ ہر حال میں خوش ہی رہیں گے |
پر مری آنکھوں میں ہلکی سی نمی رہتی ہے |
تیرے آنے کا گماں بھی نہ ہو لیکن دل میں |
کوئی امید، کوئی آس جھگی رہتی ہے |
دھوپ ہو، چھاؤں ہو، موسم ہو کوئی بھی لیکن |
میرے اشعار میں بس توں ہی چھپی رہتی ہے |
میری دھڑکن میں تیرا نام لرزتا ہے سدا |
میری سانسوں میں تری یاد بسی رہتی ہے |
کیا یہی عشق ہے، کیا ہے یہی عہدو پیماں |
دونوں کے وعدوں میں کوئی تو کمی رہتی ہے |
تیرا چرچا مرے اشعار میں رہتا ہے سدا |
استعاروں کے کسی رنگ میں بھی رہتی ہے |
کوئی لمحہ ہو، کوئی رستہ ہو، یا کوئی خواب |
تیری صورت مری آنکھوں میں سجی رہتی ہے |
یہ محبت ہے کہ اندیشہ، سمجھ آتا نہیں |
دل کے دریاؤں میں اک لہر اٹھی رہتی ہے |
چاہتوں کا یہ تسلسل ہے کہ قسمت کی لکیر |
تجھ سے ملنے کی تمنا جو لگی رہتی ہے |
سید گلزار عاصم |
معلومات