غم تیرے سوا دل میں، ٹھہرتا بھی نہیں ہے
یہ زخم کوئی ہے، جو کہ بھرتا بھی نہیں ہے
کرتے ہیں وفاؤں کا، جو دعویٰ ہمیشہ
ایسا کوئی ملتا ، جو مکرّتا بھی نہیں ہے
دنیا کی طلب کیسی؟ یہ دل بھی ہے عجوبہ
خوشیوں پہ وہ ہنستا ہے ،جو روتا بھی نہیں ہے
یہ دل کسی تسکیں پہ نہیں رکھتا بھروسہ
جو زخم لگا جائے، وہ چھپتا بھی نہیں ہے
صدیوں سے ہے زندان میں کوئی پڑا قیدی
آزاد ہو سکتا تھا وہ ، ہوتا بھی نہیں ہے
تم نے جو کہا ہم نے، وہ سمجھا تو ہے لیکن
جو راز ہے سینے میں، سمٹتا بھی نہیں ہے
جلتے ہیں کئی خواب، سلگتے ہوئے شب بھر
یہ درد ہے ایسا جو، ٹھہرتا بھی نہیں ہے
چاہت کی فضا میں یہ، سفر کیسا عجب ہے
منزل کبھی آتی ہے، تو ملتا بھی نہیں ہے

0
8