ہم نے دیکھے ہیں کئی خواب جو مر جاتے ہیں
چند پل جیت کے، مٹی میں اُتر جاتے ہیں
چاندنی رات میں امید سجاتے کیوں ہو؟
یہ دیے ہیں جو ہوا دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
غم وہ دریا ہے، جسے پار اترنا مشکل
لوگ کشتی بھی جلا دیتے ہیں، تر جاتے ہیں
دھوپ سہنی ہو تو سائے بھی پرائے لگتے
چند لمحوں میں ہی تیور یہ بگڑ جاتے ہیں
ہم نے جو زخم سنبھالے تھے محبت کی طرح
اب وہی زخم، ہر اک رات بکھر جاتے ہیں
ایک لمحے کی جدائی بھی قیامت ٹھہری
بعض لمحے بھی صدی بن کے گزر جاتے ہیں
چند آنسو ہیں امیدیں ہیں کچھ اجڑی راتیں
یاد بن کر مرے دل میں بس اُتر جاتے ہیں
ہونٹ چُپ چاپ رہیں، آنکھ بغاوت کر لے
درد جب حد سے بڑھے، اشک بکھر جاتے ہیں

0
6