بے اختیار وقت سے ٹکرا گیا ہوں میں
گر کر زمیں پہ ہوش میں پھر آ گیا ہوں میں
جاں پر بنی تو ذہن بھی مفلوج ہو گیا
اک کشمکش میں مبتلا جب سے ہوا ہوں میں
آتا ہے کون سامنے طوفاں کی طـرح
جب بھی اڑان کے لئے پر تولتا ہوں میں
نیچے شجر کے آس کی ٹہنی کو تھام کر
دیکھو تو انتظار میں کب سے کھڑا ہوں میں
چوموں گا ایک دن میں بھی پاؤں حضور کے
عاصم اسی خیال سے در پر پڑا ہوں میں

54