دریا کی تہہ میں چاند اتارے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے کتنے راز سنوارے ہوئے ہیں ہم
بادل کی اوٹ سے جو چمکتی ہے روشنی
آنکھوں میں اس کا عکس سجائے ہوئے ہیں ہم
ہر سمت رنگ و نور کی بارش کا ہے سماں
یادوں کا ایک دیپ جلائے ہوئے ہیں ہم
پتھر پہ بھی گلاب سجائے ہیں جا بجا
صحرا میں دل کے دیپ جلائے ہوئے ہیں ہم
کس کے نصیب میں تھی محبت کی بارشیں
صحرا نشیں تو خاک اڑائے ہوئے ہیں ہم
چہرے پہ نقش درد کی پرچھائیاں نہ پوچھ
پلکوں پہ اک سراب سجائے ہوئے ہیں ہم
دنیا کی دھوپ چھاؤں سے بےزار کب ہوئے
دھوکے بھی زندگی کے اپنائے ہوئے ہیں ہم
پت جھڑ کے زخم دل پہ سجائے ہوئے ہیں ہم
خوابوں کے گل ، بہار میں لائے ہوئے ہیں ہم

0