یہ جہاں ظلم کا جنگل ہے، عدالت بے کار
ہر طرف خوف کا عالم ہے، صداقت بے کار
جیت جاتی ہے ہمیشہ ہی غرض کی مٹھی
اب تو کمزور کی آواز، شکایت بے کار
چند سِکوں پہ بِکے لوگ، بے حس و بے ضمیر
حق کی میزان پہ رکھی ہوئی قیمت بے کار
کیسے انصاف کرے خون کے دھبوں کا یہاں
اب تو خود عدل کی آنکھوں کی بصارت بے کار
ایسے ادوار میں کیسے کوئی حق مانگے گا
جب کہ قانون کے کاغذ کی عبارت بے کار
اب بھی ہم سوئے رہے، زخم تو بڑھتے رہیں گے
ورنہ تاریخ کے اوراق میں عبرت بے کار
جس ریاست میں نہ عزت ہو غریبوں کی وہاں
ایسی سرکار بھی بیکار ،حکومت بے کار

0
1