آہ بن جائے گی آواز رُلا جائے گا وہ
میری غزلیں جو شبِ ہجر میں گائے گا وہ
میں جو بکھرا تو سمیٹے گا مجھے شام کے بعد
یا سرِ شام مجھے چھوڑ کے گھر جائے گا وہ
آج بھی خواب میں خوشبو کی طرح آیا تھا
کل بھی احساس کی صورت مجھے تڑپائے گا وہ
میرے لفظوں میں وفا ڈھونڈنے نکلا ہے مگر
میرے لہجے کی تھکن دیکھ کے شرمائے گا وہ
لوٹ کے آئے گا معلوم تو تھا یہ مجھ کو
جس قدر ٹوٹا ہوں میں جوڑ نہ پائے گا وہ
ہم بھی آخر جو کسی روز بچھڑ جائیں گے
پھر کئی سال مری یاد میں گھبرائے گا وہ
ہم نے چاہا تھا جسے اپنی دعا کی صورت
پھر کسی اور کی تقدیر میں آ جائے گا وہ

0
6