| جتنا بھی میں نے چاہا، وہ اتنا نہیں کہیں |
| دل میں تری جدائی کا صدمہ نہیں کہیں |
| بادل کبھی بھی آنکھ سے برسا نہیں کہیں |
| تارا کوئی اُمید کا ٹوٹا نہیں کہیں |
| اک خواب تیرے وصل کا پلکوں پہ سج گیا |
| پر دل کی سرزمیں پہ وہ اترا نہیں کہیں |
| یادوں کے گل کھلے تو مہکنے لگا وجود |
| لیکن یہ دل بہار میں بہکا نہیں کہیں |
| تم نے بھی رکھ لیا ہے سلیقہ جدائی کا |
| میں نے بھی اپنے درد کو کہنا نہیں کہیں |
| دشتِ وفا میں ہم نے بسر کی ہیں شام و صبح |
| لیکن تمہارے ذکر سے پھرا نہیں کہیں |
| صحرا میں دھوپ سہہ کے بھی ہم مسکراتے ہیں |
| سایہ ترے خیال کا چھوٹا نہیں کہیں |
معلومات