چپ چاپ بہاروں کا گزر دیکھ رہا ہوں
سہمے ہوئے سے سب ہی شجر دیکھ رہا ہوں
کس سمت گئی موجِ ہوا کچھ بھی نہ پوچھو
میں راکھ پہ بیٹھا ہوا گھر دیکھ رہا ہوں
تحریر کے ہر رنگ میں ہے تیری جدائی
اب ہجر کو میں حرف و ہنر دیکھ رہا ہوں
دیوار بھی سنتی ہے، دریچے ہیں لرزتے
خاموشیوں میں پھیلتا ڈر دیکھ رہا ہوں
اک لمس جو پلکوں پہ دمکتا تھا کبھی بھی
اب آنکھ سے بہتا وہ اثر دیکھ رہا ہوں
تنہائی مرے ساتھ ہے جیسے کوئی سایہ
میں خود کو کسی اور نگر دیکھ رہا ہوں
لفظوں کے بدن چاک کیے پھرتی ہے خواہش
میں خواب میں اک کربِ سفر دیکھ رہا ہوں

0
5