بھولنا چاہتا تھا جنہیں  عمر بھر
یاد   آتے ہیں رہ رہ کہ شام و سحر
جگنو میں اور یہ میرا آوارہ پن
رات بھر  پھرتے ہیں اجنبی  راہوں  پر
اب کہ میں ایسی بستی میں آ چکا ہوں
بات جس سے کروں وہ ہو جائے پتھر
رات بھر کہکشاں کے ستاروں کو بھی
سجدے میں  دیکھا ہے تیری دہلیز پر
دل و جاں سے  ہی تم  پر فدا ہو گیا
بھولی سی شکل و صورت تری دیکھ کر
رات بھر کی   دعا رنگ لائی مگر
جس کی تھی آرزو وہ نہیں ہے سحر
آپ کو اب قسم  کی ضرورت نہیں
میں یقیں کرتا ہوں  آپ کی بات پر

41